جب تعریف زیادتی میں بدل جائے۔۔۔

 



عنوان: قمیض اتار دی،  — جب تعریف زیادتی میں بدل جائے، —

تحریر: ڈاکٹر نسیم جاوید، بچوں اور بڑوں کے گردہ مثانہ کے سپیشلسٹ سرجن

میری پیشہ ورانہ زندگی میں، اکثر مریض جنسی مسائل جیسے ایریکٹائل ڈسفنکشن یا جلد انزال کی شکایت کے ساتھ آتے ہیں۔ لیکن خاص طور پر نوجوان مریض، جو سوشل میڈیا پر میری بے باک تصاویر دیکھ چکے ہوتے ہیں، مجھ سے بات کرتے ہوئے اپنے دل کی وہ باتیں بھی بیان کر دیتے ہیں جو برسوں چھپی رہیں۔ وہ بچپن میں ہونے والی زیادتی، شرم، اور رشتوں سے متعلق الجھنوں کا ذکر کرتے ہیں۔

اکثر ایسے نوجوان شادی سے گھبراتے ہیں، حالانکہ ان کے والدین ان پر دباؤ ڈال رہے ہوتے ہیں۔ یہ ایک بہت تکلیف دہ صورتحال ہے، اور جب انہیں ایک ایسا ڈاکٹر ملتا ہے جو ان کی بات سمجھتا ہے اور جج نہیں کرتا، تو وہ آخر کار بول پڑتے ہیں۔


یہ تحریر کسی کو شرمندہ کرنے کے لیے نہیں بلکہ ایک پیچیدہ نفسیاتی مسئلے کو سمجھنے کے لیے ہے، جو خاص طور پر اُن معاشروں میں عام ہے جہاں مردانگی کا مطلب صرف طاقت اور حاکمیت سمجھا جاتا ہے۔


چھپی ہوئی پیاس: کیوں کچھ مرد نوجوان لڑکوں سے توجہ چاہتے ہیں؟

یہ رویہ ہمیشہ جنسی رجحان کی وجہ سے نہیں ہوتا۔ اکثر یہ ایک گہری نفسیاتی ضرورت سے جنم لیتا ہے — عزت، تعریف، اور طاقت کا احساس حاصل کرنے کی خواہش۔

ایسے مرد جنہیں اپنی بیویوں یا خواتین ساتھیوں سے عزت یا تعریف نہیں ملتی، وہ اکثر ان نوجوانوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جو ان سے مرعوب ہوتے ہیں یا ان کے تابع نظر آتے ہیں۔

ایسے نوجوان:

  • ان کی جسمانی طاقت سے متاثر ہوتے ہیں،
  • جذباتی طور پر کمزور اور تابع ہوتے ہیں،
  • انہیں وہ تعریف دیتے ہیں جو ان کی انا کو تسکین دیتی ہے۔

اصل میں، یہ لوگ تعلق نہیں چاہتے، بلکہ قابو چاہتے ہیں۔


رشتہ نہیں، حاکمیت: خطرناک الجھن

ایک صحت مند رشتہ عزت، برابری اور جذباتی ہم آہنگی پر مبنی ہوتا ہے۔ لیکن ان معاملات میں تعلق کا مقصد صرف طاقت اور اثر و رسوخ ہوتا ہے۔

ایسے افراد ان نوجوانوں کو نشانہ بناتے ہیں جو خود اعتمادی میں کمزور ہوتے ہیں، تاکہ انہیں قابو میں رکھا جا سکے۔


دہرانا زخم کا: مظلوم سے ظالم تک کا سفر

اکثر یہ مرد خود ماضی میں کسی نہ کسی زیادتی کا شکار ہوتے ہیں۔ لیکن وہ ان زخموں کو بھرنے کے بجائے، اندر ہی اندر غصہ اور خوف جمع کرتے رہتے ہیں۔ جب انہیں موقع ملتا ہے، تو وہ مظلوم کی جگہ خود ظالم بن جاتے ہیں۔

وہ اُن لڑکوں کو چنتے ہیں جو کبھی ان کی طرح کمزور، مرعوب، یا محبت کے طلبگار تھے۔ یہ محبت نہیں بلکہ دوبارہ زخم دینے کا عمل ہوتا ہے۔


جذبہ اور احترام: ایک الجھن

میں اپنے کلینک میں ایسے مریضوں سے بھی ملتا ہوں جو اس بات پر شرمندہ ہوتے ہیں کہ انہیں کبھی اپنے ظالم کی طرف کشش محسوس ہوئی۔ میں انہیں بتاتا ہوں:


کسی کی طرف کشش محسوس کرنا کوئی جرم نہیں۔ مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کسی کو آپ کو نقصان پہنچانے یا آپ کی حدود عبور کرنے کا حق حاصل ہے۔ آپ ہر حال میں عزت و احترام کے مستحق ہیں۔

 

اکثر ایسا زبردستی حاکمانہ جذبہ صرف توجہ، محبت یا تحفظ کی خواہش ہوتا ہے — نہ کہ جنسی ارادہ۔


ان لوگوں کے لیے جو گزر چکے ہیں:

اگر آپ کبھی کسی ایسے انسان کا نشانہ بنے جس نے آپ کی کمزوری یا اس تعریف کرنے /کشش محسوس کرنے کو استعمال کیا، تو یاد رکھیں:

  • آپ کمزور نہیں،
  • آپ اس مسئلے کے ذِمہ دار نہیں،
  • آپ کے پاس حق ہے کہ آپ اپنی *کہانی* واپس لیں۔

چاہے آپ بول کر، تھراپی لے کر، یا اپنی جسمانی خوداعتمادی واپس پا کر شفا چاہتے ہوں — یہ سب آپ کا حق ہے۔


میری پیشہ ورانہ سوچ:

میرا نام ڈاکٹر نسیم جاوید ہے۔ میں ایک ایڈلٹ اور پیڈیاٹرک یورولوجسٹ ہوں۔ میں نے اپنا ایم۔بی۔بی۔ایس 2005 میں پنجاب میڈیکل کالج سے مکمل کیا، ۔ میں نے ایڈلٹ یورولوجی میں پوسٹ گریجویشنFCPS کے بعد سُپر سپیشلٹی پیڈیاٹرک یورولوجی میں پوسٹ گریجویٹ کیا۔

فی الحال، میں عمار میڈیکل کمپلیکس جیل روڈ لاہور اور فاروق ہسپتال ڈی ایچ اے میں پریکٹس کرتا ہوں۔

میرے کلینک میں نوجوان مریض جنسی مسائل کے ساتھ آتے ہیں، لیکن اکثر وہ جذباتی زخم بھی بانٹتے ہیں جو بہت گہرے ہوتے ہیں۔ میں نہ صرف جسمانی علاج کرتا ہوں بلکہ ان کے والدین کو بھی مشورہ دیتا ہوں کہ شادی کے فیصلے جذباتی صحت کے بغیر نہ کیے جائیں۔

میرے نزدیک مریض کو صرف جسمانی صحت نہیں، جذباتی تحفظ بھی دینا ضروری ہے۔


اگر آپ نے بھی ان حالات کا سامنا کیا ہے — یاد رکھیں، آپ کی کہانی اہم ہے، اور شفا ممکن ہے۔

رابطے یا مشورے کے لیے، آپ بلا جھجک ہم سے رابطہ کر سکتے ہیں۔ ہم ایک باعزت، بااعتماد اور صحت مند زندگی کی طرف آپ کے ساتھ ہیں۔

آپ وہ نہیں جو آپ کے ساتھ ہوا۔ آپ وہ ہیں جو آپ بننے کا فیصلہ کرتے ہیں۔


میں آپ کے جذبات کی قدر کرتا ہوں اور آپ کی بات کا احترام کرتا ہوں۔

میں صرف ایک بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ جو کچھ میں سوشل میڈیا پر شیئر کرتا ہوں، اُس کا مقصد لوگوں کو خود اعتمادی کی طرف لانا ہے، اور انہیں اس خوف سے نکالنا ہے کہ اگر وہ اپنے دل کی بات کریں گے تو ان پر کوئی فیصلہ صادر کیا جائے گا۔


میری کوشش ہوتی ہے کہ لوگ مجھ سے آسانی سے رابطہ کر سکیں، چاہے وہ اپنی ذاتی سوچ ہو یا کوئی اندرونی کشمکش، خاص طور پر وہ والدین جو اپنے بچوں کے علاج کے سلسلے میں کسی ماہر سے کھل کر بات کرنا چاہتے ہیں۔


میں بطور پروفیشنل ہمیشہ شفاف رہا ہوں۔ اگر میں خود اپنی کمزوریوں کو نہیں چھپاتا، تو میں یہ یقین بھی دلاتا ہوں کہ اپنے مریضوں کے بارے میں کچھ بھی نہیں چھپاؤں گا — یہی وجہ ہے کہ میں بعض اوقات بچوں کی سرجری والدین کے سامنے براہِ راست کرتا ہوں تاکہ ان کا اعتماد جیتا جا سکے۔


مجھے امید ہے کہ آپ میرے رویے اور نیت کو سمجھ پائیں گے۔


نیک تمناؤں کے ساتھ،

ڈاکٹر محمد نسیم جاوید

Share your thoughts at info.naseemjaved@gmail.com

Comments

Popular posts from this blog

بچوں کی نشوونما اور صحت کے لیے والدین کی رہنمائی