سائنس اور روحانیت — ایک مربوط نقطۂ نظر

یہ پیغام خاص طور پر اُن والدین کے لیے ہے جو اپنے بچوں کے علاج میں مختلف راستوں پر غور کرتے ہیں۔

عزت و احترام کے ساتھ

اکثر مریض کلینک آ کر پوچھتے ہیں کہ کیا آیورویدک دوائیں، حکیم یا روحانی طریقے جیسے دعائیں اور تعویذ بچوں کے لیے فائدہ مند ہو سکتے ہیں۔ میرا جواب ہمیشہ احترام اور کھلے دل کے ساتھ ہوتا ہے۔ میں کسی کو روحانی یا دیسی طریقے اپنانے سے منع نہیں کرتا۔

طبی علاج کو ترک نہ کریں

تاہم میں یہ واضح کرتا ہوں کہ سائنسی اور میڈیکل علاج کو ہرگز نہیں چھوڑنا چاہیے۔ میڈیکل سائنس اپنی ممکنات اور حدود کو تسلیم کرتی ہے؛ ہم بہترین علم اور محنت کے ساتھ بچوں کا علاج کرتے ہیں، مگر آخر کار نتیجہ اللہ عزوجل کے ہاتھ میں ہے۔

تکمیلی کردارِ ایمان

دعائیں، ایمان اور روحانی سہارا مریض اور اہلِ خانہ کو ہمت، سکون اور امید دیتے ہیں۔ یہ چیزیں ذہنی قوت بڑھاتی ہیں جس سے علاج کے سفر میں مدد ملتی ہے۔

میری نظر میں سائنس اور روحانیت ایک دوسرے کے حریف نہیں بلکہ ہم‌آہنگ معاون ہیں۔ طبی علاج جسمانی پہلوؤں کی دیکھ بھال کرتا ہے، جبکہ روحانی پہلو دل و دماغ کو مضبوط کرتا ہے۔ جب یہ دونوں ساتھ ہوں تو علاج زیادہ مکمل، بابرکت اور پُر اثر ثابت ہوتا ہے۔




محترم والدین۔ اگر آپ ان اہم پہلوؤں پر تفصیل سے بات کرنا چاہتے ہیں تو براہِ کرم اپوائنٹمنٹ بک کریں اور میرے کلینکس تشریف لائیں: فاروق اسپتال DHA یا عمار میڈیکل کمپلیکس، جیل روڈ لاہور۔ وہاں ہم مل کر آپ کے بچے کے علاج کے لیے بہترین طبی رہنمائی اور پُرخلوص مشاورت فراہم کریں گے۔

 

رابطہ کریں

Comments

Popular posts from this blog

بچوں کی نشوونما اور صحت کے لیے والدین کی رہنمائی

جب تعریف زیادتی میں بدل جائے۔۔۔